پچھلے سات آٹھ سال سے پاکستان میں چلغوزے کی مانگ اور قیمت میں بے پناہ تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اسکی پیداوار میں بھی مسلسل اضافہ بھی ہورہاہے مگر پیداوار میں اضافہ سے متعلق بتاتا چلوں کہ چلغوزہ صنوبر کے درخت میں اگنے والے کون میں پایا جاتا ہے جبکہ قریبا ًتمام درختوں کی اقسام میں سب سے زیادہ عرصہ میں کم بڑھنے والا درخت آنوبر ہی ہوتا ہے۔جو عموماً ہمارے ملک کے شمالی علاقہ جات جو حد سے زیادہ اونچے اور سرد ہوتے ہیں،میں پائے جاتے ہیں۔کم اونچائی والے علاقے جیسے مری،سوات،دیر اور کشمیر جو سطح سمندر سے قریباً 2500میٹر اونچائی پر ہوتے ہیں،میں صنوبر کے بجائے عموماً چیڑ کے درخت اگتے ہیںمگر اس سے زیادہ اونچائی والے علاقے جیسے گلگت اور چترال جہاں انچائی سطح سمندر سے 2700-3400میٹر ہو،وہاں کے اکثر جنگلات میں صنوبر کے درخت اگے ہوئے ہوتے ہیں۔صنوبر کے درخت کے لئے سالہاسال انتہائی سرد موسم کی ضرورت ہوتی ہے اسلئے یہ اتنے اونچائی پر پائے جاتے ہیںجبکہ ان درختوں میں چلغوزے کا یہ پھل بھی پایا جاتا ہے۔اب اگر چلغوزہ کی پیداوار کو بڑھانا ہے تو اسکے لئے ایسا ہی موسم اور درخت لگانے ہوتے ہیں اور پھر بہت لمبے عرصہ کیلئے اس کا پھل حاصل کرنے کیلئے انتظار کرنا پڑیگا۔مگر چونکہ شروع میں ہم نے کہا کہ جب سے چلغوزے کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے تب سے ہر سال مسلسل اسکی پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا آرہا ہے۔
جو بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ ہر سال پیداوار کس طرح بڑھائی جارہی ہیتو قصہ کچھ یوں ہے کہ چونکہ پہلے اس پھل سے وابستہ تاجروں کی تعداد اور شمالی علاقہ جات کے جنگلوں تک ان کی رسائی بہت کم ہوتی تھی مگر جب سے یہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے تب سے مقامی لوگ بھی اس کاروبار سے منسلک ہوئے ہیں۔جن کی وساطت سے ان سنگلاخ پہاڑوں اور دور دراز علاقوں میں ان مقامی لوگوں نے چلغوزے کی جنگلات کی کھوج لگانی شروع کی اور نتیجہ میں نئے جنگلات ان کو ملتے رہے۔اس کی میں آپ کو ایک مثال بتاتا چلوں کہ آج سے پانچ چھ سال پہلے چترال کے علاقہ کیلاش یا کافرستان درہ کے آخر میں شیخاندہ نامی علاقہ میں تین چار اونچے اور گھنے جنگلات کا جب اہلِ علاقہ نے جائزہ لیا تو یہاں نہ صرف اچھے اور اعلیٰ معیار کے چلغوزوں کے جنگلات ملے بلکہ یہاں تک انسانی رسد بھی کافی آسان تھی۔اس علاقہ سے سالانہ قریبا ً500 من چلغوزہ ملتا ہے۔جبکہ یہاں آس پاس کے علاقوں میں بھی چلغوزے کی جب تلاش شروع ہوئی تو قریباً بیریر اور رمبور نامی دروں میں بھی کافی حد تک درخت پائے گئے جو علاقہ کے غریب لوگوں کی مالی حالت سنوارنے میں بہت مددگار ثابت ہورہے ہیں۔ اس طرح حال ہی میں چترال بازار کے قریب مگر بہت اونچائی پر بیرمغلشٹ نامی غیر آباد جگہ پر ایک چھوٹااور کم عمر والے صنوبر کے درختوں کا ایک جنگل دریافت کیا گیامگر درختوں کی کم عمری کی وجہ سے اس کی پیداوار اتنی اچھی اور کافی نہیں ہے۔
اس پھل کی پیداوار سے جڑی ایک عجیب بات یہ ہے کہ صنوبر کا درخت جب کون پکڑتا ہے تو اسکے پکنے میں دو سال لگتے ہیں جبکہ یہ ہر سال پھل(کون) پکڑتا ہے۔ایک سال زیادہ پھل یعنی کون اگ آتے ہیں جبکہ اگلے سال کم پھل لگ جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک سال اگر چلغوزے کی پیداوار زیادہ ہے تو اگلے سال اس سے تین گنا کم پھل مل جاتا ہے۔اس طرح اس مناسبت سے صرف چترال میں ایک سال میں چلغوزے کی پیداوار بوری کے حساب سے تیس ہزار بوریاں ہوتی ہیں جبکہ اگلے سال یہ پیداوار دس ہزار تک رہ جاتی ہے۔ایک بوری میں سے چھلکے کے ساتھ پانچ سے سات کلو چلغوزہ نکلتا ہے۔جو بعد میں مزید خشک ہوکر وزن اسکا اور گھٹ جاتا ہے۔اب اگر دیکھا جائے تو چترال میں سالانہ اوسط چلغوزے کی پیداوار 2400 من بنتی ہے۔جو کافی مقدار ہوتی ہے۔جس سے ان علاقوں کے لوگوں کو کافی مالی فوائد ملتے ہیںاور روزگار کے لحاظ سے اب کافی لوگ اس سے وابستہ بھی ہوچکے ہیں۔ چترال میں سب سے اعلیٰ معیار اور وزنی چلغوزہ شی شی کوہ درہ کے صنوبر کے جنگلات میں ملتاہے۔جو دروش سے شمال کی جانب تقریبا ًساٹھ ستر کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اسکے ساتھ ساتھ سابقہ فاٹا اور موجودہ وزیرستان میں بھی چلغوزے کی سالانہ پیداوار قریبا ًپانچ سو ٹن بتائی جاتی ہے جو ایک بہت بڑی مقدار ہے ۔جبکہ گلگت کے علاقہ دیامیر میں بھی چلغوزے کی پیدوار قابل تعریف ہے۔ہمارے شمالی علاقہ جات میں روزگار کے ذرائع بہت ناپید ہوتے ہیں اسلئے یہاں کے لوگوں کو مالی لحاظ سے کئی مسائل کا سامنا ہوتا ہے مگر اب اللہ تعالیٰ نے ان پہاڑوں میں چلغوزے کی شکل میں چھپے خزانوں کے منہ ان کیلئے کھول دئیے ہیں۔
تاہم خیبر پختونخوا اور لاہور کے تاجر یہاں کے لوگوں سے چلغوزے کی خرید کی مد میں ایک سال ایڈوانس کی ادائیگی کرتے ہیں۔جبکہ پھل توڑنے اور خشک کرنے کے بعد کون سے نکالنے کے عمل سے گزارنے کیلئے بھی مقامی مزدوروں کو کافی اچھی دیہاڑی مل جاتی ہیمگر اسکے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے چلغوزے کی انڈسٹری کو فروغ دینے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے بلکہ تاجروں کیلئے مشکلات پیدا کی جارہی ہیںکیونکہ چترال اور گلگت سے جاتے ہوئے ہر لوڈڈ گاڑی سے ہر فارسٹ چیک پوسٹ پر نہ صرف ان کو روک کر تنگ کیا جاتا ہے بلکہ ان سے جرمانے کی صورت میں فی گاڑی دس ہزار روپے بھی لئے جاتے ہیں۔جو بنوں اور لاہور کی منڈیوں تک پہنچتے پہنچتے ایک گاڑی نے اسی ہزار سے ایک لاکھ روپے دئیے ہوئے ہوتے ہیں۔
حکومت کی ایک اور ستم ظریفی سے آپ کو آگاہ کرتا چلوں کہ چترال ہی کے ایک تاجر کے پاس لاہور میں دو کروڑ روپے مالیت کے چلغوزے پڑے ہیں جس پر کسٹم اہلکاروں نے چھاپہ مار کر اپنے قبضہ میں اس غرض سے لے لیا ہے کہ یہ مال افغانستان سے بغیر کسٹم ڈیوٹی ادا کئے لایاگیا ہے۔تو جواب میں جب اس تاجر نے چترال سے لاہور تک کسٹم اور فارسٹ کے نام پر ٹیکس ادائیگیوں کی تمام مطلوبہ دستاویزات فراہم کیں تو پھر کسٹم اہلکاروں نے دوسرا حیلہ یہ بنایا کہ جس جنگل سے آپ یہ مال لائے ہو اسکا کیا ثبوت ہے کہ یہ جنگل حکومت کی ملکیت ہے یا عوام کی ذاتی ملکیت ہے۔اب بیچارہ آٹھ سو کلومیٹر سفر کرکے ثبوت حاصل کرنے کیلئے کبھی چترال کا چکر لگاتا ہے تو کبھی لاہور کا۔اب وہ لاہور اور چترال کے درمیان اٹک چکا ہے جبکہ دوسری طرف اگر مال وقت پر نہ بک سکا تو خراب ہونے کا بھی خدشہ ہے.
دوسری طرف چلغوزے کی پیداوار اور مانگ میں اس وجہ سے اضافہ ہوا کہ چین اسکا سب سے بڑا خریدار بن رہا ہے۔جبکہ پاکستان کا تقریباً سارا چلغوزہ چین کو برآمد کیا جاتاہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اب پاکستان کے چلغوزے کی مانگ یورپ اور خاص کر فرانس میں بھی بڑھ رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب یہ چلغوزہ فرانس کو بھی کافی حد تک برآمد کیا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان میں چلغوزے کی پیداوار میں اضافہ ہورہاہے بلکہ قیمت میں ہر سال مسلسل دو سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوتا آرہا ہے۔کیونکہ 2012میں ایک کلو چلغوزے کی قیمت پاکستان میں 1200روپے تھی جبکہ 2019میں سات سے آٹھ ہزار فی کلو ہوگئی تھی۔مگر اب 2020میں اسکی قیمت کرونا کی وجہ سے برآمد بند ہونے کی وجہ سے پانچ سے چھ ہزار رہ گئی۔لیکن اگر اسکی کرونا کی وجہ سے برآمد پر پابندی نہ لگ جاتی تو اسکی قیمت فی کلو دس سے بارہ ہزار چلی جاتی مگر کرونا وبا کی وجہ سے بین الاقوامی نقل وحمل پر پابندی کی وجہ سے پاکستان کا چلغوزہ اس سال چین اور یورپ کو برآمد نہ ہوسکا۔جس کی وجہ سے تاجروں کے کروڑوں روپے مارکیٹ میں ڈوب گئے
۔پاکستان میں چلغوزے کی تین بڑی منڈیاں، بنوں،چلاس اور لاہور میں ہیں۔چین کے بارڈر کے قریب ہونے کی وجہ سے چلاس کا مال زیادہ تر چین کو جاتا ہے۔کیونکہ چین کے تاجروں کو چلاس کی منڈی تک براہ راست رسائی میں بڑی آسانی ہوتی ہیلیکن اسکے ساتھ ساتھ چلغوزے کی کافی مقدار افغانستان سے بھی پاکستان کی منڈیوں اور خاص کر بنوں کو آتی ہے۔جس کی وجہ سے لاہور اور چلاس کے مقابلے میں بنوں کی منڈی چلغوزے کی سب سے بڑی منڈی مانی جاتی ہے جبکہ پورے ملک کیلئے یومیہ کے حساب سے چلغوزے کا ریٹ بھی یہاں کی منڈی سے منسلک کیا جاتا ہے۔بزنس ریکارڈ کے مطابق 2017-2018کو پاکستان میں چلغوزے کی پیداوار 3000میٹرک ٹن رہی جو پوری دنیا میں چلغوزے کی پیداوار کی %15 بنتی ہے۔جبکہ چین نے اسی سال 19000میٹرک ٹن پیداوار دی۔ پاکستان کسٹم ادارے کے 2013-2014 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے 2.5ہزار ٹن چلغوزہ بیرون ممالک کو برآمد کیا جس سے ترسیلات زر کی مد میں پاکستان کو 68 ملین ڈالر ملے۔جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس معمولی سے کاروبار سے پاکستان کو سالانہ کتنا فائدہ ملتا ہے مگر نہ یہ کہ حکومت اس کاروبار کی حوصلہ افزائی کو توجہ دیتی ہے بلکہ اس کاروبار سے منسلک تاجروں سے نامعلوم ٹیکس اور چیک پوسٹوں پر تنگ کرنے کی صورت میں الٹا انکے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہے جبکہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے چلغوزے کی پیداوار میں ایک دن کمی دیکھنے کو بھی ملے گی۔اس طرح نہ صرف حکومت کو ان تاجروں کے مشکلات حل کرنے میں دلچسپی لینی چاہیے بلکہ ٹمبر مافیا کی طرف سے ان جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو بھی روکنا چاہئے جو ہمیں چلغوزے جیسے قیمتی پھل دیتے ہیں۔جس کے روزگار سے ہزاروں لاکھوں غریبوں کے چولہے جلتے ہیں۔