کچھ دنوں سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدارصاحب کی تبدیلی کی خبریں آرہی ہے۔ یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے کہ جب بزدار صاحب کو لایا گیا تھا تو تبدیلی تب آچکی تھی انہیں ہٹا کر دوبارہ تبدیلی لانا ممکن ہی نہیں۔ کیونکہ تبدیلی آچکی ہے۔ پتہ نہیں کون لوگ ہیں جو بزدار صاحب کے پیچھے پڑے ہیں وہ صرف بزدار صاحب نہیں رہے اب وہ وسیم اکرم پلس بھی ہیں اورذرا سوچئے اگر وسیم اکرم کو ورلڈ کپ 92 میں تبدیل کر دیا جاتا تو—-۔ اسلئے اگر کوئی ٹیم کوئی صوبہ کوئی ملک وسیم اکرم کو نہیں ہٹا سکتا، تو وسیم اکرم پلس کو کیسے ہٹایا جا سکے گا۔ ان لوگوں کے عقل پر پردے پڑے ہیں۔
خان صاحب آپ سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ بزدار صاحب کو کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ ان گھسے پٹے دانشوروں کو۔ لفافہ خور صحافیوں کو اور پوری قوم کو یہ پیغام دیجیے کہ آپ نے جب جب کمٹمنٹ کی ہے آپ نے سوائے چند سو وعدوں کو چھوڑ کے باقی سب پورے کئے ہیں۔ ویسے بھی کچھ لوگ چلاتے رہیںگے۔ یہ کچھ ہزاروں، لاکھوں لوگ تب بھی چلاتے رہے کہ فردوس عاشق اعوان کو ہٹا۔ اور تو اور پارٹی کے اپنے ممبر اور وزرا ء بھی چلاتے رہے لیکن فردوس آپا نے پورے دو سال پورے کئے۔ کسی نے آپ کا کچھ بگاڑا، اسلئے بزدار صاحب دو سال پورے کر چکے اور بس ابھی تو صرف 3 سال رہتے ہیں۔
اوپر سے بزدار صاحب جیسا خاموش اور گہرا وزیر اعلیٰ پھر اس ملک کو نصیب نہیں ہوگا۔ سیانے کہتے ہیں جو بندہ جتنا خاموش ہوتا ہے۔ اندر سے اتنا گہرا اور تیز ہوتا ہے۔ اوپر سے بزدار صاحب کی عقابی آنکھیں۔ پل بھر میں مخالف کو ہیناٹائز کر دیتا ہے اور سامنے والے کا منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ آخر چکر کیا ہے۔
بزدار صاحب کی اس خاموشی کو کامیابی کی ضمانت ثابت کرنے کیلئے میں ایک اور خاموش انسان کی مثال دیتا ہوں۔ پاکستان کے کامیاب ترین کپتان مصباح الحق کو لیجئے۔ گرائونڈ اور گرائونڈ سے باہر کتنے خاموش ہوتے تھے۔ فیلڈ میں بس کھڑے ہو جاتے اور ہم میچ جیت جاتے۔ کچھ سیانے کہتے ہیں کہ مصباح نے سارے نہیں تو اکثر میچز دوبئی میں جیتے ہیں۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی، ویسے تو ہندوستان کی کرکٹ ٹیم بھی اپنے ملک میں شیر اور باہر ڈھیر۔ اب دیکھو مصباح الحق ایک نہیں دو نہیں تین تین عہدوں پر براجمان ہے۔ ہے نا خاموش ٹیلنٹ۔ کچھ پاگل کہتے ہیں وہ خان صاحب کے کزن ہیں، میں نہیں مانتا۔
اسلئے کوئی کچھ بھی کہے آپ خدارا بزدار صاحب کو 5 سال پورے کرنے دیں۔ پھر دیکھنا لوگ کتنے حیران ہوتے ہیں۔ ویسے بھی بزدار صاحب نے اپنے کام کی رفتار کو بھی بڑھایا ہے۔ سنا ہے ڈیرہ غازی خان کے ایک ہسپتال کو اپنے والد کے نام سے موسوم کیا ہے۔ کتنا نیک کام کیا ہے- والد سے بڑا رشتہ بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔
ہاں ایک اور بات یہ پچھلے جو وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، انہوں نے کونسا تیر مارا ہے۔ اور ویسے بھی اس حکومت میں ہم نے کئی بار سنا ہے کہ کہ ترقی سکولوں، ہسپتالوں، سڑکوں، ریلوے لائن، میٹرو وغیرہ تعمیر کرنے کا نام تھوڑی ہے۔ ترقی تو بس ترقی ہوتی ہے اور آپ نے بھی کہا ہے کہ اصل ترقی انسانوں پر کام ہوتا ہے۔ اسلئے تو اب تک ایک کروڑ پینتیس لاکھ لوگ نوکریوں سے فارغ ہوگئے ہیں اور اب جب وہ فارغ ہو گئے ہیں تو بڑے آرام اور سکون کیساتھ ریسرچ کرکے ان سب پر کام کیا جائے گا- اگر وہ نوکریاں کرنے میں مشغول ہوتے تو ان پر آپ اور ہم کام کیسے کرینگے۔
اسلئے آپ سے التجا ہے کہ خدارا عثمان بزدار کو 5 سال پورے کرنے دیں۔ ساتھ ساتھ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان صاحب کو بھی 5 سال پورے کرنے دیں۔ آپ نے ایک بار اسے ہٹایا تھا، مجھے بہت افسوس ہوا تھا۔ لیکن جب آپ نے دوبارہ اسی منصب پر بٹھایا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی اور خوشی کیوں نہ ہوتی وہ جب بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں تو آپ بہ آواز بلند فرماتے ہیں میرا شیر آگیا۔ بس ہمیں بھی آپ کا شیر اچھا لگتا ہے کہ وہ بھی مزید تین سال دھاڑتا رہے۔ ویسے بھی میں نے پہلے ایک کالم میں ذکر کیا تھا یہ صاحب بزدار کو شیر شاہ سوری بھی کہتے ہیں۔ سو ایک آپ کا شیر ایک شیر کا شیر شاہ۔ اللہ جوڑی سلامت رکھے۔باقی جن لوگوں نے باتیں بنانی ہیں بنانے دیں۔ اس دن مرکزی وزیر اطلاعات شبلی فراز صاحب نے یہ مژدہ سنایا کہ بزدار صاحب کہیں نہیں جا رہے۔ میری سانس میں سانس آگئی۔ بس شبلی صاحب سے بھی درخواست ہے کہ اپنے کہے کا پاس رکھیں۔ یہ لوگ چلاتے رہیں گے ۔ بزدار صاحب تو ایک خاموش طبع انسان ہے۔ اس بیچارے نے کسی کا کیا بگاڑا ہے جو سب ان کے پیچھے پڑے ہیں۔ اس دن مشہور ٹی وی اینکر(پتہ نہیں مشہور ہے بھی کہ نہیں پر لوگ کہتے ہیں) کامران خان صاحب نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر آسمان سر پراٹھایا تھا کہ بزدار صاحب نے ان کا پورا شو خراب کیا۔ پہلے وعدہ کیا۔ پھر سوال بھجنے پر بضد رہا، انہیں پہلے سے سوال بھی بھیج دئیے، حالانکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے اورپھر عین وقت پر بزدار صاحب چھو منتر۔اب کامران خان کو کون سمجھائے۔ تم ایک معمولی ٹی وی میزبان اور بزدار صاحب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ۔ اب وہ آپ کے پروگرام میں نہیں آئے تو کونسی قیامت آگئی۔اور آخری بات، خان صاحب یہ کالم میں نے محض 40 سے 45 منٹ میں لکھا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ میں نے دل سے لکھا ہے، جو کہ میری سچائی کا ثبوت ہے کیونکہدل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔باقی آپ کا حکم سر آنکھوں پرلیکن سر بزدار صاحب،یاد رکھنا پلیز۔