آٹھ اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلے کو 15 برس گزر چکے ہیں مگر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے طلبہ اب بھی اس سے متاثر ہیں۔ زلزلے سے تباہ ہونے والے سکولوں میں سے 800 کے قریب اب بھی چھت سے محروم ہیں جس کے نتیجے میں تقریباً 61271 بچے شدید موسم میں بھی کھلے آسمان تلے پڑھنے پر مجبور ہیں۔
ریکٹر سکیل پر 7.6 شدت سے ریکارڈ ہونے والا یہ زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے تباہ کن زلزلہ تھا جس میں 80 ہزار سے زائد اموات ہوئیں جبکہ ہزاروں عمارتیں تباہ ہو گئی تھیں۔
ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر سے تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زلزلے سے قریباً 2800 سکولز منہدم ہو گئے تھے۔
بارش میں سکول بند ہو جاتے ہیں
مظفرآباد سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور میانی بانڈی کا گورنمنٹ ہائی سکول بھی انہی سکولوں میں شامل ہے جہاں تقریباً سو کے قریب طلبہ اب بھی کھلے آسمان تلے پڑھ رہے ہیں۔ یہ سکول زلزلے سے مکمل تباہ ہو گیا تھا اور یہاں پڑھنے والے پندرہ طلبہ بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
شہزاد عادل کی عمر پانچ برس تھی جب ان کا گھر 8 اکتوبر 2005 کو آئے زلزلے میں ملبے کا ڈھیر بن گیا اور ان کی دادی، والدہ اور تین بہن بھائی اس کے نیچے دب کر ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کے بعد وہ اپنے والد اور باقی بہن بھائیوں کے ساتھ ایک عارضی پناہ گاہ میں منتقل ہو گئے۔
پندرہ سال گزرنے کے باوجود وہ ابھی تک وہیں رہنے پر مجبور ہیں۔