مہمند ڈیم سے متاثرہ افراد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ کی عدم ادائیگی پر نوٹس لیا جائے اور ان متاثرین کو مذاکرات کے لئے بلاکر جیل بھجوانے کی تحقیقات کی جائیں جبکہ ڈیم میں مقامی افراد کو نوکر یاں دینے سمیت درپیش مسائل حل کیے جائے بصورت دیگر احتجاجی تحریک شروع کرنے پر مجبور ہونگے
اس حوالے سے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی ضلع مہمند کے جنرل سیکرٹری شاہ سوار مہمند، صدر ملک اسرائیل، ڈاکٹر حیات، نور الاسلام اور نور محمد سمیت ڈیم سے متاثرہ افراد نے کہا کہ مہمند ڈیم کی تعمیر کے وقت مہمند انتظامیہ اور واپڈا حکام سمیت دیگر متعلقہ محکموں نے علاقے کے مشران سے معاہدہ کیا
کہ ڈیم کی اراضی کے مالکان کو فی گھرانہ 60 لاکھ روپے بطور معاوضہ دیا جائے گا اور ملازمتوں میں بھی مقامی افراد کو ترجیح دی جائے گی معاہدہ میں طے ہوا کہ 900 ایکڑ اراضی پر ڈیم تعمیر کیا جائے گا تاہم جب ڈیم کام شروع ہوا تو 16 سو ایکڑ اراضی قبضہ کر لیا گیا اور صرف آٹھ خاندانوں کو رقم کی ادائیگی کی گئی جبکہ 450 افراد پر مشتمل 74 خاندانوں کو تاحال معاوضہ نہیں دیا گیا،
ڈیم کے لیے اراضی کی خریداری کے لئے دس ارب روپے مختص کئے گئے تھے تاہم صرف ساڑھے چار ارب روپے خرچ کئے گئے بقایا رقم کا بھی احتساب نہیں کیا گیا جبکہ چند روز قبل انتظامیہ نے ان سینکڑوں افراد کو ان کے گھروں سے بیدخل کر دیا متاثر خاندانوں نے جب اپنے حق کے لیے احتجاج شروع کیا تو انتظامیہ نے ان متاثرہ خاندانوں کے سات افراد کو مذاکرات کے لئے بلا کر گرفتار کرکے ڈی آئی خان جیل بھجوایا دیا جو ظلم کی انتہا ہے
انہوں نے کہا کہ مہمند کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر نے بھی اس معاملے میں خاموشی اختیار کر لی ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم، وزیر پانی و بجلی، واپڈا چیئرمین، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور آئی جی پی اس معاملے پر نوٹس لے کر تحقیقات کرے اور گرفتار افراد کی رہائی کے لئے اقدامات کرے ورنہ سخت احتجاج کا راستہ اپنائیں گے
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ان متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینا چاہیئے تھا اورحکومت کو چاہیے کہ فی گھرانہ ایک کروڑ معاوضہ دیں شناختی کارڈ کے تحت دیا جائے اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف کی فراہمی کرے جبکہ ڈیم میں مقامی افراد کو ملازمت کے مواقع دی جائیں بصورت دیگر احتجاجی تحریک شروع کرنے پر مجبور ہونگے ۔