406

وزیر آعظم صاحب خوشامدیوں سے ذرا بچ کے

عالمزیب خان

پاکستان کے تیسرے صدر اور گورنر جنرل غلام محمد ایک دن اپنے کچھ وزیروں کیساتھ کراچی شہر سے گزر رہے تھیں کہ اُن کی
نظرایک زیر تعمیر عمارت پر پڑی تو کہنے لگیں “کیا بات ہے آجکل کراچی میں بھی بڑی بڑی عمارتیں بن رہی ہیں”۔ غلام محمد
مرحوم کا یہ کہنا تھا کہ گاڑی میں موجود اُن کے مشیر اور ما تحت یک زبان ہونے لگیں کہ قبلہ یہ بھی آپ کی برکت ہیں۔ یہ واقعے
کا ذکر سابق بیوروکریٹ اور ادیب قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف خود قدرت اللہ صاحب بھی فوجی
آمر ایوب خان کو بادشاہ سلامت کہہ کر پکارتے تھے۔
ویسے توخوشامدی ٹولے کیطرف سے حکمرانوں کی چاپلوسی کی تاریخ بہت پرانی ہیں لیکں پاکستان میں اس کے ڈانڈے غلام محمد
کے دور سے جا ملتی ہیں اور ایوب خان کے دور میں تو یہ عروج پر پہنچ گئی۔ اس دور میں ایک مسعود صادق نامی شخص کی
چمچہ گیری پورے ملک میں مشہور تھی۔ ایک اور صاحب پیر علی محمد راشدی تو بلا ناغہ خط لکھ کر ایوب خان صاحب سے
بادشاہت کا اعلان کرنے کی درخواست کیا کرتے تھے۔ بات یہاں تک نہیں رُکی، بھٹو مرحوم، ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے
اور جب ذوالفقارعلی بھٹو کو اقتدار ملی تو جنرل ضیاءالحق چاپلوسی کی چاشنی سے مستفید ہوگئیں۔ یہ خوشامدی اور چاپلوسی کی
دو دھاری تلوار اتنی بے رحم ہوتی ہے کہ بھٹو جیسا ذہین رہنما بھی اس کی وار سے بچ نہیں پایا۔
خاشامدیوں کا یہ ٹولہ تب سے لیکر آج تک ہر دور میں اور ہر ایک حکومت کے ساتھ سائے کیطرح موجود رہتا ہے، تب تک جب اُس
حکومت یا شخصیت کودیمک کیطرح چاٹ کر گھٹلیاں پھینک نہ آئے۔ بعد میں یہی ٹولہ پتلی گلی سے نکل کر اگلی محاذ پہنچ جاتا ہے۔
اور کچھ عرصے بعد کلٹی مار کے دو چار وار بھی کر گزارتا ہے تاکہ لوگ اُن کی پچھلی کار ستانیاں بھول جائیں۔
پھچلے دو تین دہائیوں سے لیکر آج بھی یہی کاروبار چل رہا ہے۔ نواز شریف صاحب کے زمانے میں کچھ چڑھتے سورج کی
پوجاریوں نے اُنھیں شیر شاہ سوری کا خطاب دیا تھا اور شیخ رشید جیسے موسمی سیاستدان تو اُن کے جلسوں میں برملا کہا کرتے
تھے کہ آندھی ائے یا طوفان شیخ رشید ، میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ لیکن جب بارہ اکتوبر ننانوے کی ہوا چلی تو شیخ
صاحب کو مشرف صاحب کے صحن میں پھینک دیا۔
شیر شاہ سوری سے یاد آیا ابھی پھچلے دنوں پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے شیر شاہ سوری کے خطاب کا یہ
تمغہ نواز شریف کے گلے سے اُتروا کر جنابِ عثمان بزدار صاحب کے گلے میں ڈال دیا۔ شیر شاہ سوری نے سولویں صدی عیسوی
میں ستر سال کی ادھیڑ عمر میں مغل بادشاہ ہمایوں کو شکست دیکر مغلیہ دورِ حکومت کو بریک لگوا دیئں۔ اور صرف چار سال کی
حکمرانی میں کابل سے کلکتہ تک جرنیلی (اج کا جی ٹی روڈ) سڑک کیساتھ ساتھ ایسے مواصلاتی نظام کی بنیاد ڈالی جو آج تک قابلِ
رشک اور قابلِ استعمال ہیں۔ اب بزدار صاحب نے ایسا کیا کرنا ہے، یہ چوہان صاحب بتائینگے کسی دن۔
اسطرح جب پرویز مشرف صاحب کا ستارہ عروج پر تھا تو اُن کے ایک پراعتماد ساتھی پرویز الٰہی صاحب نے برملا عوامی جلسوں
میں ارشاد فرمایا کہ وہ اور ان کی ساتھی مشرف کو دس سال تک باوردی صدر بنا کے رہینگے، کسی میں ہمت ہیں تو روک کے
دکھا دے۔ لیکن کچھ دن پہلے جب خبر ائی کہ پرویز مشرف بستر مرگ پر ہیں تو پرویز الٰہی عمران خان کے حکومت میں بیٹھ
کردن رات جمہوریت کے حق میں نت نئے انکشافات کرتے رہیں جن میں ایک یہ بھی ہیں کہ آن کے زمانے میں عدلیہ بحالی تحریک
کے دوران پرویز مشرف نے موصوف کو کسی جلوس کے اندر پٹاخہ پھوڑنے کا کہا تھا لیکن موصوف نے انکار کیا تھا۔
خوشامدیوں کی یہ فہرست بہت طویل ہیں اور کچھ خوشامدی تو پچھلے کئ حکومتوں کو کھڈے لائن لگا کر من حیث القوم پی ٹی آئی
حکومت کے کرتا دھرتا بن چکے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر عمران خان حکومت کی یہ بد قسمتی کہ اُن کے پاس پرانے زمانے کے، پھر
مختلف پارٹیوں کے اور کچھ جدید تقاضوں کے عین مطابق ایسے ایسے نگینے اکھٹے ہو گئے ہیں کہ وہ کسی زمان ومکان سے آزاد
خوشامدی میراتھون میں یدِطولا رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سالہ دورِحکومت میں آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے گئے سب نہیں تو
اکثران ہستیوں کی مرہونِ منت ہے۔ بلکہ اگر ان لوگوں کی جگہ حامد خان، وجیہہ الدین ، عمر چیمہ، فوزیہ قصوری، اکبر ایس بابر
اور ایسے بہت سارے پارٹی کے اپنے لوگ موجود ہوتے تو شاید حالات کچھ بہتر ہوتے کیونکہ یہی لوگ کھٹِن وقت میں عمران خان
کے ساتھ تھیں جبکہ اُس وقت مذکورہ خوشامدی ٹولہ خان صاحب اور اُن کی پارٹی پر جگتیں مارتے تھیں۔

یہ لوگ تو اب پارٹی میں اگئے ہیں اور خان صاحب کی اقتدار کے خاتمے تک کہی جانے والے نہیں۔ اسلیئے اب خان صاحب کے
ذمے ہیں کہ یا تو وہ اسیے ریشم کے کیڑوں کے سُنی کو ان سُنی کر کے قوم کی بیڑی کو پار لگا دے (جو بظاہر انتہائی مشکل ہے)،
یا پھر ان حضرات کے تعریفی کلمات سننے میں مگن رہے چاہے وہ آپ کو مسلم دنیا کا نجات دہندہ کہے، قائد آعظم ثانی کہے، یا
تیسری دنیا کا نپولین۔ ویسے تو شیر شاہ سوری بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اب کی بار وہ اعزاز بزدار صاحب کے پاس ہے۔
البتہ اگریہی سلسلہ چلتا رہا تو سمجھو خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے کیونکہ جب خوشامدی اور چاپلوسی عروج پر پہنچ جائے تو
مستفید ہونے والا انسان خوش فہمیوں کے حصار میں آجاتا ہیں جس سے بچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور ویسے بھی آپ کی تعریف
کیلئے آپ کے ووٹر کافی ہیں۔ کیونکہ پھچلے ڈیڑھ سال کی پے در پے نامحرومیوں کے باوجود لاکھوں لوگ اب بھی مانتے ہیں کہ
آپ ان کی نیا پار لگا سکتے ہیں۔ باالکل ویسے جیسے آپ نے اس قوم کو شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی جیسے ادارے دیے ہیں ہاں
فرق صرف یہ ہیں کہ اُس وقت یہ خوشامدی لوگ آپ کے پاس نہیں تھیں۔ اسلئیے ذرا بچ کے رہنا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں