329

خیبرپختوںخوا کے ہزاروں خواتین حق وراثت سے محروم

خیبر پختونخوا کے ہزاروں خواتین حق وراثت سے محروم، وراثت میں حقوق دلانے کے لے کمپلینٹ دائر
معروف قانون دان ایکٹوسٹ سیف اللہ محب کاکا خیل ایڈووکیٹ نےمحتسب خیبر پختونخوا کے پاس زینت محب و نعمان محب ایڈووکیٹس کی وساطت سے کمپلینٹ درج کی جس میں اُنھوں نے موقف اپنایا ہے کہ خیبر پختونخوا کی خواتین کو وراثت، حق مہر، گفٹ، پیسے، گولڈ اور قیمتی اشیاء سے محروم کیا جاتا ہے۔
کمپلینٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر خواتین ناخواندگی اور بنیادی حقوق سے بے خبررہنے کی وجہ سے معاشرے میں حق وراثت، مہر،زیوارات اور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم رکھا جاتا ہے۔

انکا کہنا ہے کہ عدالتوں میں لوگ لیٹر آف ایڈمنسٹریشن اور سكشن سرٹیفکیٹ تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن نادرا سے اسکی تصدیق نہیں کی جاتی کہ آیا کسی نے بیٹی، بیوی یا ماں کو حق وراثت یادیگر حقوق سے محروم تو نہیں رکھا گیا۔ اور اُسی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پرجاءداد اور بینک بیلنس کو مردوں کو منتقل کر دی جاتی ہی جو کہ قانون اور قرآن و سنت کی خلاف ورزی ہے۔
کمپلینٹ میں یہ موقف بھی اپنایا گیا کہ عدالتوں میں بھی انکے نام دیوانی مقدمات میں نہیں لکھے جاتے اور انکی موجودگی کو چھپایا جاتا ہے۔


اُنھوں نے محتسب عدالت سے استدعا کی ہے کہ ہر ڈپٹی کمشنر آفیسر اپنے علاقے میں معلوماتی کمپین چلائے اور نادرا کے ساتھ مل کر ریوینیو ادارے میں جتنے بھی انتقلات ہوئے ہیں انکو دیکھا جائے کہ کسی عورت کو حق وراثت سے محروم تو نہیں رکھا گیا۔
سیف اللہ محب کاکا خیل نے بتایا کہ بحیثیت ایک وکیل انکے پاس کافی مقدمات آتے ہیں اور اس میں بہت سے خواتین اپنے گھر کے مردوں کے ڈر کی وجہ عدالت سے رجوع نہیں کرتی اور دوسرا سب سے بڑا مسئلہ عدالت میں صدیوں تک مقدموں کا چلنا ہوتا ہیں۔
اُنھوں نے یہ بھی استدعا کی ہے کہ پیمرا اور پی ٹی اے ایڈورٹائزمنٹ اور ایس ایم ایس کے ذریعے پاکستان کی تمام خواتین کو آگاہ کریں کہ انکے وراثت کے حقوق کیا ہیں اور کیسے انکو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی استدعا کی ہے کہ جب تک فیملی ٹری اور فزیکل وریفکیشن نہیں ہوتی تب تک ڈپٹی کمشنر انتقال یا منتقلی روک لیں اور سینئر سیول ججز سرٹیفکیٹ دینے سے پہلے نادرا اور کمیشن کے ذریعے تصدیق کر لیا کریں تب اسکو جاری کریں۔

فاءل فوٹو

اور جو آفیسر ان احمکات کو مانے سے انکار کریں ان کے خلاف سخت کارروائی ہو، انکی تنخوا کو اٹیچ کر دیا جائے اور توہین عدالت کی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے۔ ساتھ میں میجر اور مائنر سزائے بھی دی جائیں تاکہ خواتین کے حقوق کو محفوظ بنایا جائے۔ 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں