ضیاء الحق سرحدی
یہ حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کو قدرت نے مختلف قسم کی معدنیات سے مالا مال کر رکھا ہے۔انہی میں ایک ماربل بھی ہے اس وقت نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع کے بہت سے علاقوں سے قیمتی ماربل نکالا جا رہا ہے ،سینکڑوں فیکٹریاں کام کر رہی ہیںجہاں پر اس ماربل کو خوبصورت ودیدہ زیب ڈیزائنوں میںترتیب دے کر مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے اگر اپنی صوبے کی بات کریں تو یہاں پر سوات،بونیر،چترال،کوہستان،مردان ،ہزارہ،نو شہرہ اور کوہاٹ کے علاقوں سے ماربل نکالا جاتا ہے اور انہی علاقوں میں ماربل فیکٹریاں بھی کام کر رہی ہیں ماربل نکالنے سے لے کر فیکٹریوں میں اس کی ڈیزائننگ تک کے مراحل کے دوران جو مسائل پیش آ رہے ہیں اس کی وجہ سے کروڑوں روپے کے یہ ذخائر ضائع ہو رہے ہیں
پلاننگ میں ضیاع سے لے کر لوڈشیڈنگ کی بدولت وقت کے ضیاع تک ان گنت مسائل نے آج ماربل انڈسٹری کو گھیر رکھا ہے اس طرح اگرضم شدہ اضلاع کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی طور پر یہ علاقہ جات خشک اور بارانی ہے ایک اندازے کے مطابق ضم شدہ اضلاع کا کل رقبہ کا محض 7فیصد ہی زیرِ کاشت ہے اس میں سے بھی صرف 3فیصد کو آبپاشی کی سہولت حاصل ہے باقی4فیصد بارانی ہے اور فصلوں کی پیداوار کے لئے بارشوں کے رحم وکرم پر ہی رہتا ہے علاقے میں صنعتیںنہ ہو نے کے برابر ہیںکاروباری مواقع بھی کم ہیں جس کی وجہ سے غریب اور بیروزگاری نے پنجے گاڑ رکھے ہیں
تاہم یہ خشک اور پہاڑی علاقے قدرتی اور معدنی وسائل سے مالا مال ہیں اربوں کھربوں روپے مالیت کی معدنیات ضم شدہ اضلاع کے سینے میں دفن ہیںمگر افسوس کے ان سے فائدہ اٹھانے والا کوئی نہیں اس پورے علاقے میں اب تک 21مختلف اقسام کی معدنیات دریافت ہو چکی ہیںجبکہ علاقے میں تیل وگیس کے علاوہ سونے ،چاندی اور زمردکے وسیع ذخائر کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے ،بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے اس علاقے کی حالتِ زار بدلنے کے لئے یہاں کے قدرتی وسائل سے استفادہ پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز نہیں کی جس کی وجہ سے یہاں کے لاکھوں لوگوں کی تقدیر نہ بدل سکی اگر حکومت نے دلچسپی لے کرضم شدہ اضلاع کے قدرتی وسائل سے استفادہ سے حکمت عملی اختیار کر لی تو نہ صرف ضم شدہ اضلاع وخیبر پختونخوا بلکہ پورے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ضم شدہ اضلاع کے معدنی ذخائر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 3دسمبر2010ء کو ملک کے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر تے ہوئے یہ کہہ کر نہ صرف حاضرین محفل بلکہ پورے ملک کو ہی چونکا دیا کہ بلوچستان کے مینڈک کی طرح کے سونے اور کاپر کے وسیع ذخائر شمالی وزیرستان میں بھی موجود ہیں جن کی مالیت کا اندازہ 250ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے ضم شدہ اضلاع میں خیبر،مہمند اور باجوڑ ایجنسی ماربل کے ذخائر کے لئے مشہور ہیں
صرف 2015ء میں قبائلی اضلاع سے4لاکھ 23ہزار ٹن سے زائد ماربل نکالا گیا جس میں مہمند ایجنسی کا حصہ 96.2′ باجوڑ کا 3.51اور خیبر کا 0.24فیصد رہا ایک اندازے کے مطابق صرف قبائلی اضلاع میں7ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیں ملک بھر میں پائے جانے والے کل ماربل ذخائر کا 98فیصد سے زائد اس صوبے اور ضم شدہ اضلاع میں موجود ہے گویا اگر تھوڑی توجہ دی جائے تو صرف ماربل انڈسٹری کے ذریعے ہی اس خطے میں ترقی وخوشحالی کی لہر چل سکتی ہے صوبہ خیبر پختونخوا اور ضم شدہ اضلاع میں اس وقت 30مختلف قسم کا ماربل پایا جاتا ہے جن میں سب سے مشہور تو زیارت ماربل ہے تاہم سپروائٹ ‘بادل آف وائٹ’زیبرا’پنک’نوشہرہ’ جیٹ بلیک’بامپوخہ اور گولڈن ماربل بھی بہت پسند کئے جاتے ہیں ملک بھر میں ماربل کی صنعت تیزی سے پھلنے والی صنعت ہے ایک اندازے کے مطابق 1990ء میں ملک بھر میں ماربل کی صرف 6فیکٹریاں تھیں جو بعد از اں 1700سے تجاوز کر گئیں ماربل کی صنعت سے ہمارے صوبے میں براہ راست ایک سے 2لاکھ تک لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جبکہ6سے 8لاکھ لوگ بالواسطہ طور سے اس صنعت کے ذریعے روزی روٹی کما رہے ہیں بد قسمتی سے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر اس صنعت پر ضرورت کے مطابق توجہ مرکوز نہیں کی جا رہی جس کی وجہ سے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ماربل نکالنے کے لئے پرانے اور دقیانوسی طریقے ابھی تک استعمال ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ماربل کی بہت بڑی مقدار ضائع ہو رہی ہے ہمارے ہاں ابھی تک بلاسٹنگ کے ذریعے ماربل نکالا جاتا ہے ۔
حکومت کو چاہیے کہ ماربل کے ضیاع کوروکنے کے لئے ایسی جدید مشینری کو متعارف کرایا جائے جس سے بلاسٹنگ کی تکنیک سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے ۔ملک میں جدید مشینری نہ ہونے کی وجہ سے کٹائی میں85فیصد ماربل ضائع ہو رہا ہے۔یہ طریقہ دنیا بھر میں تقریباً متروک پا چکاہے کیونکہ اس کی بدولت ماربل کی بہت زیادہ مقدار ضائع ہوتی ہے دنیا بھر میں کانوں سے نکالنے کے دوران ماربل کے ضیاع کی شرح 45فیصد ہوتی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ یہ شرح 2.5فیصد تک لائی جائے بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہی شرح 85فیصد ہے گویا اگر کسی کان سے روزانہ 100ٹن ماربل نکالا جاتا ہے تو اس میں سے85ٹن ضائع ہو جاتا ہے یوں ہر روز کروڑوں روپے کا ماربل غیر سائنسی طریقوں سے نکالے جانے کی بدولت ضائع ہو رہا ہے چنانچہ نہ صرف اس حوالے سے آگاہی بلکہ تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے بہتر تو یہی ہوگا کہ بلاسٹنگ کی بجائے کٹنگ کا طریقہ اختیار کیا جائے اس سے اربوں روپے کا ماربل ضائع ہونے سے بچ سکے گا پاکستانی ماربل میں اس وقت سعودی عرب اور اٹلی خصوصی دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں سعودی عرب مستقبل میں 260ارب ڈالر کی لاگت سے نئے شہر بسانے کا منصوبہ رکھتا ہے جس کے لئے اسے بڑے مقدار میں ماربل کی ضرورت ہوگی اگر ہم سعودی عرب کے ساتھ مل کر اس حوالے سے حکمت عملی ترتیب دیں اور اس کے معیار کا ماربل مہیا کرنے کا اہتمام کریں تو چند سالوں میں اربوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں اس طرح اٹلی بھی ہمارے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے وہ بارٹر سسٹم کے تحت ماربل کے بدلے مشینری دینے پر بھی آمادہ ہے،اگر حکومت تھوڑی سی دلچسپی لے تو اٹلی پاکستانی ماربل کے لئے بہت بڑی مارکیٹ بن سکتا ہے،روس میں بھی پاکستانی ماربل کی کھپت کی بہت زیادہ گنجائش ہے بدقسمتی سے ماربل برآمدات کے معاملے میں ہماری کارکردگی زیادہ اچھی نہیں ہے اگر حکومت کوشش کرے خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں ماربل کی صنعت پر خصوصی توجہ دے تو یہ برآمدات کئی گنا بڑھائی جا سکتی ہیں2016ء تک کے لئے حکومت نے ماربل کی برآمدات 2.5ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف تو مقرر کر رکھا تھا مگر فی الوقت اس ہدف کا حصول مشکل نظر آتا ہے۔ماربل سیکٹر کے فروغ کے سلسلہ میں اس شعبے کی مالی ضرورت کے لئے منرل ڈیولپمنٹ بینک قائم کیا جائے، اس شعبے کو ترقی دے کر ملکی برآمدات میں خطیر اضافہ کیا جاسکتا ہے۔پاکستان ماربل کے ذخائر کے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک ہے جہاں 350ملین ماربل 64مختلف اقسام میں پایا جاتا ہے جو کہ دنیا بھرمیں ماربل کی اعلیٰ اور قیمتی اقسام ہیں،فی الحال عالمی منڈی میں ماربل کی کل تجارت کا حجم 62بلین ڈالر ہے جس میں پاکستان کا حصہ 1فیصد سے بھی کم ہے ،جو تشویشناک ہے۔حکومت کے پالیسی سازوں کو ماربل انڈسٹری کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے جو کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری سے بھی زیادہ زرمبادلہ کمانی کی صلاحیت رکھتی۔اگر ماربل انڈسٹری کے مسائل کے حل پر توجہ دی جائے اور آسان قرضوں اور ٹیکنالوجی کی صورت میں ان کی مدد کی جائے تو ماربل کی برآمدات کو با آسانی 200ملین ڈالر تک لے جایا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں ماربل انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی مشکلات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا 75فیصد مختلف قسم کے دفاتر کے چکر کاٹنے میں ضائع ہو جاتا ہے اس طرح لوڈ شیدنگ اور کم وولٹیج نے بھی آج ماربل انڈسٹری کو پریشان کن صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے مہمند ایجنسی میں ماربل سٹی بننے کے اعلانات کافی عرصہ سے ہو رہے ہیں لیکن ابھی تک یہ خواب تخمینہ تکمیل ہی ہے ماربل اس صوبے اور قبائلی اضلاع کے لئے قدرت کا بیش قیمتی تحفہ ہے ۔ حکومت قبائلی عمائدین ‘کان اور فیکٹری مالکان مل کر اگر اس حوالے سے نئی حکمت عملی ترتیب دیں کان کنوں اور کارکنوں کی جدید انداز میں تربیت کی جائے ماربل نکالنے کے لئے سائنسی طریقے اختیار کئے جائیں۔ لوڈشیڈنگ کے مسائل حل کئے جائیں اور ایکسپورٹ کے لئے نئی نئی منڈیاں دریافت کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خیبرپختونخوا اور فاٹا صرف ماربل انڈسٹری سے اربوں روپے سالانہ اضافی کمائے جاسکیں۔
542