کسی بھی ملک یا معاشرے میں مذہبی رواداری کو نظرانداز کرکے امن وامان ، استحکام اور ترقی کی منازل کا حصول مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف دیگر مذاہب اور عقائد بلکہ اسلام میں بھی مذہبی رواداری کو مقدم رکھا گیا ہے۔ ہجرت کے بعد رسول اللہۖ نے بھی مدینہ منورہ میں رہائش پذیر دیگر مذاہب اور عقائد کو ماننے والے لوگوں کے ساتھ نہ صرف رواداری کا برتائو کیا تھا بلکہ وقتا ًفوقتا ًان لوگوں کے ساتھ تعلقات کو استوار رکھنے کیلئے معاہدے بھی کئے گئے تھے۔ ریاست مدینہ میں تمام دیگر مذاہب اور عقائدکے ماننے والوں کو بعض قیودوضوابط کے تحت تمام تر مذہبی عقائد اور عبادات کی آزادی حاصل تھی۔ اسی طرح خلافت کے دور میں سلطنت عثمانیہ، سلطنت عباسی اور ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے زمانے میں بھی مذہبی رواداری کو قائم ودائم رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مغل دور اور مغل دور سے قبل برصغیر پر زیادہ دور کیلئے مسلمانوں نے حکومت کی تھی جب کہ ہندوستان جو اب بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا پر مشتمل ہے کی اکثریتی آبادی کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے علاوہ یہاں پر سکھ پادری اور دیگر مذاہب اور عقائد ماننے والے لوگ بھی رہتے تھے۔ جب کہ برطانوی حکمرانوں کے آتے ہی یہاں کے غریب اور پسماندہ طبقات کے زیادہ تر لوگ مسیحی مذہب کو مان کر مسیحی بن گئے تھے۔ برطانوی نوآبادیاتی دور میں حقیقی معنوں میں ہندوستان میں ایک ریاستی ڈھانچہ معرض وجود میں آیا اور اس خطے میں رہنے والے تمام مذاہب اور عقائد ماننے والے لوگوں کو یکساں شہری، مذہبی اور معاشی حقوق حاصل ہوگئے اور برطانوی نظام حکومت میں تعلیمی قابلیت اور کوائف کی بنیاد پر بغیر کسی مذہبی شناخت کی بنیاد پر انتظامی ڈھانچے میں شامل کرلیا گیا۔ اس دوران فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں میں ہندوئوں، مسلمانوں، سکھوں اور مسیحیوں کیلئے علیحدہ علیحدہ وردی، رہنے سہنے اور مذہبی عبادات کیلئے انتظامات بھی کئے گئے تھے۔ ایک ہی فوجی یونٹ، پولیس پلاٹون یا پولیس تھانے میں بیک وقت ہندوئوں، مسلمانوں ، سکھوں اور مسیحی طبقوں سے تعلق رکھنے والے سرکاری فرائض سرانجام دیتے تھے۔ ان تمام کو اپنی اپنی مذہبی عبادات اور رسومات کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی ، تاہم بعض اوقات پر ایک دوسرے کے مذہبی عقائد اور رسومات کا بھی باقاعدگی سے احترام کرتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متحدہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں مذہبی عقائد کی بنیاد پر کبھی کبھار فسادات رونما ہوتے تھے۔ مگر برطانوی حکمران مختلف مذہبی فرقوں سے تعلق رکھنے والے عمائدین بشمول مذہبی رہنمائوں کے تعاون سے ان فسادات پر قابو پالیتے تھے۔ برطانوی نو آبادیاتی دور کے خاتمے پر جب ہندوستان دو علیحدہ علیحدہ ریاستوں میں تقسیم ہوا تو مسلمانوں کی زیادہ تعداد پاکستان میں شامل ہوگئے تاہم 1971 میں بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے سے اب بھارت میں مسلمانوں کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے۔ 1947 میں جب جون پلان کے تحت ہندوستان کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کردیا گیا تو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کے پہلی قانون سازاسمبلی سے اس نوزائیدہ مسلم ریاست کے انتظامی ، سیاسی، مذہبی ، معاشی اور معاشرتی خدوخال بہت واضح طریقے سے بیان کئے تھے۔ بد قسمتی یہ رہی کہ بانی پاکستان کے اس تاریخی خطاب کو عوام سے دور رکھا گیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کے 1948 میں وفات کے بعد اس خطاب پر پابندی لگوادی گئی اور اسے عوام سے دور رکھا گیا اور ابھی تک یہ مقتدر حلقوں کے ایوانوں کی الماریوں میں بند پڑا ہے۔
اس تاریخی خطاب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اور قائد اعظم محمد علی جناح کے اس تاریخی خطاب کے بعد ابتدا میں موجودہ پاکستان کے تمام تر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں او سکھ خاندانوں نے بھارت جانے سے احتراز کیا تھا مگر بعد کے حالات کے پیش نظر زیادہ تر لوگ بھارت جانے پر مجبور ہوئے تھے۔ 1947 میں آزادی کے بعد پاکستان میں ہندوستان کی آبادی دوسرے نمبر پر تھی مگر اب نہیں۔ چند روز قبل پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں ہندوئوں کے مندر کی تعمیر پر کام شروع ہونے کے بعد ملک بھر میں ایک واویلا شروع ہوا۔ بہت زیادہ لوگوں نے اس مندر کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہوئے نہ صرف وزیر اعظم عمران خان بلکہ مذہبی امور کے وزیر پر بھی طرح طرح کے الزامات لگوائے اور بالاًخر وفاقی حکومت نے اس مندر پر کام روک لیا ۔ اب معاملہ یہاں رکنا نہیں چاہیے کیونکہ اسلام آباد میں ہندوئوں کے مندر پر کام رکنے سے اگر ایک طرف دنیا بھر میں پاکستان کو ایک انتہاپسند ریاست کے الزام کیساتھ جینا پڑگیا ہے تو دوسری طرف اس مندر کی تعمیر سے بھارت میں رہائش پذیر مسلمانوں کے حال اور مستقبل پر کیا اثرات رونما ہوسکتے ہیں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر اس وقت ملک بھر کے چاروں صوبوں اور اہم شہروں کا جائزہ لیا جائے تو یہاں پر ہندوئوں، سکھوں اور مسیحوں کی عبادات گاہیں اور دیگر مذہبی مراکز قائم ہیں۔ چونکہ متحدہ ہندوستان میں مسیحی برادری کو برطانوی حکمرانوں کی حمایت حاصل رہی تھی ۔ اسی وجہ سے قیام پاکستان کے بعدان کی عبادات گاہوں اور مراکز کو وہی حیثیت لگ بھگ 2014 تک حاصل رہی۔ مگر ہندوئوں اور سکھ خاندانوں کے بھارت ہجرت کرنے کے فورًا بعد نہ صرف ان کی انفرادی جائیدادوں، مکانات اور املاک پر اثرورسوخ رکھنے والے کبراہ نے قبضے میں لے لیا بلکہ ان کی عبادات گاہوں اور تعلیمی اداروں کو بھی قبضہ کرکے ان کو ذاتی تجارتی مراکز میں تبدیل کردیا گیا۔ جنوری 2013 میں ساوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے ایک عالمی کانفرنس کے سلسلے میں دوستوں اور ساتھیوں سمیت لاہور سے ملحقہ ہندوستان کے شہر امرتسر جان کا موقع ملا تھا۔ امرتسر کے ایک مصروف ترین بازار میں سوداسلف خریدتے وقت کپڑے کی ایک دکان کے سامنے ایک حویلی نما مکان پر نظر پڑی، اس مکان کو وہی پرانا تالا پڑا تھا۔ درودیوار سے لگتا تھا کہ اس مکان میں کوئی نہیں رہتا جب کہ مکان کے اندر درخت اور پودے جھاڑیوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ دکاندار سے استفسار پر پتہ چلا کہ یہ مکان ایک مسلمان خاندان کی ملکیت ہے جو 1947 کے بٹوارے کے بعد لاہور پنجاب منتقل ہوگئے ہیں۔ اب یہ حکومت کی تحویل میں ہے۔ مگر سرکار نے بھی اس کو مکمل قبضے میں نہیں لیا ہے اور کوئی بھی 1947 کے بعد اس حویلی نما مکان کے اندر ابھی تک نہیں گیا ہے۔
بلوچستان کے نورالائی میں ہندو دکاندار نے دکان کو ایک مقامی شخص کے حوالے کیا تھا اور مقامی شخص کے بیٹے کا چند روز قبل 70 سال کی عمر میں انتقال ہوا، مگر ہندو کی دکان ابھی تک اسی طرح بند ہے جس طرح مالک نے تالا لگواکر چھوڑا تھا۔ کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر وجود میں آئی ہے اور یہاں کی اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے مگر آئین پاکستان میں غیر مسلم لوگوں کو بھی یہاں اپنے مذہبی عقائد پر آزادی اور تحفظ کرنے کا حق ہے۔ اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر سے کسی بھی طور پر اسلام کو کوئی خطرہ نہیں۔ مفتی تقی عثمانی ے بھی مندر کی تعمیر کی مخالفت نہیں کی ہے ۔اسلام آباد میں مسیحی برادری کے لوگوں کے چرچ قائم ہیں اور اگر یہاں ہندوئوں، سکھوں اور دیگر مذاہب ماننے والوں کی عبادت گاہیں قائم ہوجائیں تو اس سے پاکستان پر تنگ نظری، متعصب اور انتہاپسندی لگیہوئے الزامات کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ ملک بھر کے علما ء کرام پاکستان کو ایک روشن خیال اسلامی ریاست بنادیں نہ کہ ایک معتصب، تنگ نظر اور انتہا پسند ریاست۔
464