220

نیب کے خوف سے لوگ ملک میں سرمایہ کاری نہیں کر رہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کیا چیرمین نیب کے علاوہ کوئی نیب کی تعریف کرتا ہے؟ نیب کا ملزمان سے رویہ نیب کے بارے میں ہونے والی باتوں کی وجہ ہے۔

سپریم کورٹ نے نیب سے ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے پالیسی دو ہفتے میں طلب کر لی۔ عدالت نے حکم دیا کہ پالیسی نہ بنی تو چیر مین نیب خود پیش ہوں۔

سپریم کورٹ میں باغ ابن قاسم کراچی کی الاٹمنٹ کے ملزمان ڈاکٹر ڈنشاہ اور سابق ڈی جی پارکس کراچی لیاقت علی خان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ پراسیکوٹر جنرل نیب نے ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے رپورٹ پیش کی جس پر عدالت نے مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری پر پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر پر اظہار برہمی کیا۔

پراسیکوٹر جنرل نیب نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ریفرنس میں کل 27 ملزمان ہیں جن میں سے تین مرکزی کرداروں کو پکڑا گیا ہے، تمام ڈی جیز نیب کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ریفرنسز میں ملزمان کے کردار کو مدنظر رکھ کر گرفتار کیا جائے۔

اس پرجسٹس سجاد علی شاہ نے کہانیب کا رویہ جانبداری ظاہر کرتا ہے، دوسرے مقدمات میں ہونے والی پلی بارگین ہمیں اس کیس میں لا کر دکھا رہے ہیں، نیب کہتی ہے کہ ایک ملزم نے دوسرے 6 ریفرنسز میں پیسے دے دیے تو اس میں بھی دے دے گا، ہر کیس کی علیحدہ علیحدہ بات ہوگی، کیا نیب کی مرضی ہے جسے چاہے گرفتار کرے جسے چاہے نہ کرے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب کے موقف سے واضح ہے کہ نیب ایک ملزم کی جانب سے آنے والی رقم کی وجہ سے متاثر ہے، نیب شخصی آزادی سے ڈیل کرتے ہوئے احتیاط کرے نیب کا رویہ مناسب اور غیر تفریقی ہو تو کئی مقدمات عدالتوں تک آئیں گے ہی نہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اتنے بڑے آدمی کو آپ لوگ موٹروے پر پکڑ لیتے ہیں کیا کوئی شخص موٹروے سے بھاگ سکتا ہے ؟۔ پراسیکوٹر جنرل نیب نے کہا وہ گرفتاری ہم نے نہیں کی تھی ۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا چیرمین نیب کے علاوہ کیا کبھی کسی نے نیب کی تعریف کی ہے، صرف وہ ہی نیب کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں