گزشتہ روز آفیشل میٹنگ کے سلسلے میں نوشہرہ کے علاقے امان گڑھ جانا ہو ا۔ میرے ساتھ آفس کے کو لیگ اویس بھی تھے ۔امان گڑھ میں ہماری ملاقات میاں مدثر شاہ اور انکے بیٹوں کے ساتھ ہوئی جو کہ نہایت ہی معززومحترم لوگ تھے ۔ان کا فارم ہائوس نوشہرہ کے دریا کے کنارے واقع تھا جو کہ سیروسکون کے لحاظ خوبصورت جگہ تھی ۔ میاں صاحب نے موجودہ وباء کورونا کے حوالے سے بہت متاثر کن باتیں کیں اور عوام کے رویہ کا بھی تذکرہ کیا کہ جو احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے ۔ واپسی پر ہمارا گزرفروٹ منڈی پر ہوا تو ہم نے گاڑی کو منڈی کی جانب موڑا تاکہ کچھ فروفٹ خرید لیا جائے ۔ ابھی دوپہر کا وقت تھا اور منڈی میں رش نہ ہونے کے برابر تھا ۔ہم نے نظر دوڑائی تو زیادہ تر پھلوں کے بادشاہ آم دکھائی دئیے ۔
میں نے اویس کو بتایا کہ اس موسم میں ایک بار رمضان کے آخر میں آم گھر لے گیا تھا مگر اس میں ذائقہ نہیں تھا کیونکہ موسم ابھی نہیں آیا تھا ۔ اب آم پکے اور اچھے دکھائی رہے ہیں لہٰذا لیناچاہتا ہوں ۔ریٹ پوچھے تو دام آسمان سے باتیں کرتے دکھائی دئیے ۔بہرحال ہم نے مختلف چھابڑی فروشوں کے فروٹ چیک کئے ،ایک چھابڑی فروش ملا جو کہ مناسب ریٹ بتارہا تھا ۔ ہم نے اس سے دو کریٹ آم خرید لئے اور ساتھ پڑی خوبانیاں بھی خرید لیں ۔آم گھر لے آئے تو واقعی موسم میں آم کھانے کے قابل پائے ۔آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا صر ف ذائقہ ہی لاجواب نہیں ہوتا بلکہ آم کھانے کے اتنے فوائد ہیں کہ انہیں شمار کرنا مشکل ہے ۔ مرد ہویا عورت ،بچے ہو ں یا بوڑھے ۔۔۔ ہر فرد کو موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی آم کا شدت سے انتظار ہوتا ہے۔
آم برصغیر وپاک وہند کا قومی پھل ہے ،اسی باعث اسے پاکستان وبھارت میں پھلوں کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے ۔آج کل بادشاہ اوراس کی پاکستانی رعایادونوں خطرے میں ہیں ۔ رعایا یعنی پاکستانی عوام کورونا کے سنگین خطرے سے دوچار ہیں جبکہ بادشاہ سلامت اس وائرس کو روکنے کے لئے ہونے والے حفاظتی اقدامات کی وجہ سے مشکل میں ہیں ۔پاکستان میں آم کے باغات صوبہ سندھ اور پنجاب میں واقع ہیں اور دسمبر کی سردی جاتے ہی سال نو کے پہلے مہینے یعنی جنوری سے ہی ان آموں پر پھول مہکنا شروع ہوجاتے ہیں اور بعد میں یہ کیریوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔آموں کا موسم روزگار کے مواقع بھی لاتا ہے ۔ مئی کے مہینے میں ان با غات میں میلے جیسا سماں بندھ جاتا ہے۔سندھ میں چونکہ آم کی فصل پہلے تیار ہوتی ہے اس لئے یہاں پہلے آم اتارے جاتے ہیں ۔اس کے لئے ہر سال پنجاب سے ماہر مزدور اس موسم میں سندھ کا رخ کرتے ہیں ۔کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی وجہ سے اپریل کے مہینے میں ملک گیر لاک ڈاؤن اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باعث اس بار جنوبی پنجاب کے مزدوروں کی کم تعداد باغات میں پہنچ پائی اور پھلوں کی رسائی میں بھی کافی دقت کا سامنا کر پڑا ۔
عالمی فلا ئٹس کی بندش، سرحدوں کو بند کئے جانے ، گڈز ٹرانسپورٹ کے بے تحاشا کرایوں اور سب سے بڑھ کر آم کی برآمد کے کم آرڈرز ملنے کے باعث رواں سال آم کی برآمد میں 35سے40فیصد کمی کا امکان ہے ۔پاکستان فروٹ ایکسپورٹ ا یسوسی ایشن کے صدر اور فروٹ کی برآمد کے بڑے بیوپاری وحید احمدنے ترک خبر رساں ادارے اناطولوکو بتایا کہ وبا ء کے باعث اس سال پاکستانی آم کی برآمد 80ہزارمیٹرک ٹن سے زیادہ نہیں ہوگی ۔انہوں نے بتایا کہ پاکستانی صرف آم کی برآمد سے ہر سال 9کروڑ امریکی ڈالر تک کما لیتا ہے ۔مگر رواں سال کورونا وبا ء کی وجہ سے رقم 5کروڑ ڈالر سے زیادہ نہیں ہوگی ۔انہوں نے مزید بتایا کہ آم کے کارو بارکے حوالے سے وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ،انہیں زیادہ دیر تک نہیں رکھا جاسکتا اور عالمی سفر پر پابند یاں برآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ ہیں ۔
منفرد ذائقے اور مٹھاس کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستانی آم کی طلب زیادہ ہوتی ہے مگر بد قسمتی سے گزشتہ 4سال سے پاکستانی آم کی کاشت میں بھی کمی دیکھی جارہی ہے ۔ رواں سال موسم گرماکے تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے آم کی کاشت بھی 2ہفتے تاخیر سے شروع ہوئی ،جس کی وجہ سے آم کی پیدا وار میں کمی کا امکان ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمام انسانیت کے حال پر رحم فرمائیں اور اس تاریک دور سے نکلنے کی توفیق عطافرمائیں آمین۔
347