کاشف الدین سید
یا اللہ یہ عید تھی؟ کیسی عید، عید تو خوشیاں لاتی ہے،پیاروں کو ملاتی ہے، قربتیں بڑھاتی ہے۔ فاصلے مٹاتی ہے،محبتیں بانٹتی ہے، اور مسکراہٹیں بکھیرتی ہے۔ مگر یہ تو عید نہیں تھی۔
شائد جون ایلیاء کو بھی کسی ایسی ”عید“ سے دوچار ہونا پڑاتھا۔ جس پر وہ یوں بول اٹھے۔
کہاں کی عید،کیسی عید، کیاعید؟
یہ کیا گڑ بڑ مچائی جارہی ہے؟
میرے مولا؛ یہ عیدنہیں تھی، یہ تو ستمگر بن کر آیا اور پیاروں کو چھین کر لے گیا،دکھ اور غم دے کر گزر گیا،کسی کے آنگن اجاڑ گیا۔ اور کسی کا دل توڑ کر چلا گیا۔ عید کے دوسرے دن ہی میرے بھائی جیسے دوست نیاز علی کو ایسا دکھ دے گیا جس کا مداوا صرف اللہ میاں تیرے ہی پاس ہے۔اسی دن اس کا گھر اجڑ گیا،ہماری بھابی کینسر جسیے موذی مرض سے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئی،ایسے میں کیسے کہہ دوں کہ یہ عید تھی،یہ عید جس نے دوپیاروں کو الگ کیا،جس نے میرے بھائی جیسے دوست کو وہ درد دیا جو مٹنے کا نہیں۔ اس کے دل میں ایسا گھاوٗ لگایا جس نے بھرنا نہیں، اور دل بھی وہ جو پہلے سے آدھا”بنجر“ ہے، کیسی عید؟ جس نے سعد اور اقصٰی سے ”امی“ کا پیار چھین لیا انہیں ممتا سے محروم کردیا۔ یا اللہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں افطاری کی قبولیت گھڑیوں اورآخری عشرہ کے لیلتہ القدرسے معمور ”ہزارراتوں کی عبادت“ سے افضل مقدس راتوں میں سعد کی التجائیں قبول ہوئیں نہ اقصٰی کی سسکیوں نے کام کردکھایا،وہ کون سے ہاتھ تھے جو اس کی صحت وسلامتی کے لئے نہیں اٹھے، دور و نزدیک رشتہ داروں میں کون تھا جو اس کے لئے گڑ گڑایا نہیں لیکن پھربھی ”عید“جو رمضان کے بابرکت ساعتوں،دن بھر کی بھوک پیاس اور رات کے قیام کے ثمرات سمیٹنے کا دن قرار پایا ہے، ان کے دامن میں خوشیوں کی بجائے آنسو،اور دواء کی جگہ درد دے گیا۔عالیہ بھابھی؛جس نے ہمیشہ مجھے بھائی کا احترام دیا،میرے درد پہ وہ دکھی رہی اورمیری تکلیف کو ہمیشہ محسوس کیا، میری مشکلوں میں میرے لئے اللہ تعالٰی کے دربار میں سربسجدہ رہی ، اور ایک بہن کی طرح جولی پھیلا کر میری کامیابی کے لئے دعائیں مانگی،، صرف یہ نہیں اپنا دکھڑا بھی اکثر مجھے سناتی،اور میرے سامنے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی، وہ خود تو صبر واستقامت کا پہاڑ تھی اور اس کا دل برداشت کا ایک ایسا سمندر تھا۔ جو ہر مصیبت اور تکلیف یو ں جذ ب کر دیتی جیسے کچھ ہو اہی نہیں، لیکن موذی سرطان کے سامنے وہ حوصلہ ہار بیٹھی، اسے لاعلم رکھنے کے لاکھ جتن ہوئے لیکن وہ جان گئی تھی، کہ بیماری جان لیواہے البتہ کسی پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ اوراند رہی اندر گھلتی رہی،ہجر کا کرب اس کی آنکھوں میں جھلکنے لگا تھا، درد کی ٹھیسیں جب بڑھنے لگیں اور سرطان کے پھیلتے اثرات نے رنگ دکھانا شروع کردیا تو اس نے خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔اور ”عید الفطر“ کے دوسرے دن خالق حقیقی سے جا ملی۔ خود چلی گئی لیکن اپنی بلند ہمتی اور اولولعزمی کو سعد اور اقصٰی کے حوالے کر گئی ہے۔ اور یقین ہے کہ وہ اپنی ”امی“ کی اسی اثاثے کو سینے لگائے رکھیں گے۔ اس عید کے ستم کراچی طیارہ سانحے کی صورت میں پوری قوم کے لئے دکھ اور کرب کا سامان کر گئے۔ پورے پورے خاندان اس سانحے نے ایسے نگل لئے کہ اب ان کی میت پر ماتم کرنے والا بھی کوئی نہیں رہا، ماوٗں کے سپنے اور بہنوں ارمان خاک میں ایسے مل گئے کہ ان کا دیدار بھی نصیب نہیں ہوا۔ جو ان کے لئے عمر بھر کا روگ بنا رہے گا، یہ عید ان کے لئے آئندہ کے عیدین کو کرب وبلا ء کی علامت بنا کر چھوڑگیا ہے۔ جب عید آئے گی۔ انہیں اسی سانحے کی یاد دلائے گی اور ان کے زخم تازہ ہونگے۔ ہاں البتہ، رب کریم ان کے زخموں کا جبیرہ کرسکتا ہے۔ اور انہیں بہتر نعم البدل کی عطاء کر سکتا ہے،
عید کے دوسرے ہی دن ہمارے سینئر ساتھی فوٹو جرنلسٹ گلشن عزیز صاحب کے انتقال کی خبر ملی، پیشہ ورانہ مہارت کے حامل گلشن عزیز ہر وقت اپنے کام میں مگن رہتے، خیبر سے چترال تک حسین مناظر اور تاریخی لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرکے روزنامہ مشرق کے صفحات کے ذریعے قارئین اور ناظرین تک پہنچاتے رہے، لاہور سے پشاور منتقل ہونے والے اس ہمہ وقت فوٹو جرنلسٹ نے پشاور کی سرزمین پر اپنے پیشہ ورانہ مہارت کے جھنڈے گاڑ دئے اور کئی اعزازات حاصل کئے۔ ہم جیسے جونئیرز کے ساتھ ان کے گفتگو کا ایک مشفقانہ اور منفرد انداز تھا جسے بھلایا نہیں جاسکتا۔
کہاں کی عید کیسی عید؟ یہ تو محض چند دن تھے جو گزر گئے مگر جب پشاور پہنچے تو ایک اور اندوہناک خبر کواپنا منتظرپایا،فخر الدین سید: ہمارے دوست، اور سنگی، صحافی کمیونٹی کا ایک ہنستا مسکراتا چہرہ، کرونا وائرس سے کئی دنوں سے نبرد آزمائی کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گیا،وہ گزشتہ کئی دنوں سے حیات آباد میڈیکل کمپلکس میں زیر علاج تھے۔ ڈاکٹرز ان کی سانسیں بحال کرنے کی جتن کر رہے تھے۔ صحافی دوست ان کے لئے دوا کے ساتھ ساتھ دعاوٗں کا بھی اہتمام کر تے رہے۔ سماجی رابطے کے ذرائع میں ہلچل مچا ہواتھا، پریس کلب کے عہدیدار متحرک تھے۔ سینئر صحافی متفکر تھے،جونیئر ساتھی دوڑ دھوپ میں مصروف تھے۔لیکن فخرالدین سید؛ ہمارا متحرک کارکن صحافی ساتھی جانبر نہ ہوسکے۔ رات کو کچھ حوصلہ افزاء خبریں آگئی۔ لیکن کرونا وائرس اپنا مہلک وار کرچکا تھا۔ خصوصی نگہداشت وارڈ کے ٓآلات اور ماہر داکٹروں کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں اور ہمارا دوست ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے جنازے میں شریک کیا چھوٹے کیا بڑے سب چہروں پر ماسک چڑھائے اپنا دکھ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تمام ساتھی سلام دعا کے علاوہ ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو سے گریز کر رہے تھے۔ ایک کربناک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب کے دل بھرے ہوئے تھے اور آنکھیں چھلکنے کو بیتاب تھی جسے چپ کا روزہ رکھ کر قابو کیا گیا تھا۔ وائرس کے ظالمانہ ضابطوں میں ہم اپنے دوست ہم پیشہ سنگی کا آخری دیدار بھی نہ کر سکے۔ لیکن اس میں خیر کا ایک پہلو یہ ہے کہ فخر الدین سید؛ شہید ہے اور ہمارے ذہنوں میں ان وہی ہنستا مسکراتا چہرہ ہی زندہ رہے گا۔ جب بھی ان کا ذکر آئیگا تو ہم چشم تصور سے ان کا شگفتہ چہرہ دیکھیں گے۔ کیونکہ ان کی بندھی ٹھوڑی اور ڈحلکا چہرہ تو ہم نے دیکھا ہی نہیں۔۔۔۔۔
یہ عید تھی؟؟ کیسی عید کہاں کی عید۔۔۔۔ یہ تو گڑ بڑ مچائی گئی۔ اے رب ذولجلال ہمارے پیاروں کی مغفرت فرما۔ ان کے درجات بلند فرما۔ اور آئندہ ہمیں کبھی بھی کبھی بھی۔۔۔۔۔ ایسی عید۔۔۔ دکھ بھری عید سے محفوظ فرما۔ یا رب کریم ہماری خوشیاں ہمیں واپس کردے،تو رحیم ہے تو کریم ہے ہماری لغزشوں کو معاف فرما۔ ہمیں احساس ہے اور مانتے ہیں کہ ہماری عبادتیں محض دکھاوا ہیں، ہمارے روزے بس بھوکے پیاسے رہنے کی مشقیں ہیں، اور ہماری طاعتیں ناقص ہیں، ہم کمزور ہیں ناتواں ہیں ہماری دعائیں بے اثر ہیں۔۔۔۔ لیکن تو حلیم ہے، ستارہے اور صبور ہے۔ بندوں کی بڑی سے بڑی نافرمانیاں دیکھ کر بھی معاف کردیتا ہے۔ ہمیں معاف فرما۔ آمین
436