عالمزیب خان
مبارک ہو، مبارک ہو (طاہر القادری کے انداز میں مبارک ہو)، پوری قوم کو گھبرانے کی اجازت مل گئی ۔حالانکہ اس حکومت کے سو دن پوری ہونے کے بعد ہی اُس وقت کے فواد چوھدری، فیاض الحسن چوہان،عامر لیاقت، شیخ رشید اور باقی وزرا کے بیانات نے ایسا سوگوار ماحول بنایا تھا کہ لوگ وزیرآعظم صاحب سے درخواست پر درخواست کر رہے تھیں کہ خان صاحب حالات سنبھل نہیں رہے،اسلئے ہم تھوڑا گھبرا لیتے ہیں۔ لیکن اُس وقت عوام کو گبھرانے کی اجازت نہیں ملی۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد بھی حالات نہیں سنبھلے، پھر ہم چندہ اکھٹا کرنے ایک عالمگیرمہم پر نکل پڑے جس میں سب سے اہم کردار آئی ایم ایف کا رہا۔ اللہ اُن کا بھلا کریں۔ چندہ اکھٹا کرنےمیں اتنا مزہ آیا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ 1800 سے 2200 ارب روپے تک کی لاگت پر بننے والا بھاشا ڈیم جیسے میگا پراجیکٹ کو بھی چندے سے بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس شاندار تجربے میں تقریباَ 12 سے 13 ارب روپے اکھٹے ہو گئے جبکہ ڈالر کی آڑان اور روپے کی گراواٹ کے بعد اب بھی اتنی ہی باقی ہیں جتنے پیسوں پر ڈیم بنتا ہے، یا شائد اِس سے بھی زیادہ۔ کچھ دن بعد ثاقب نثار صاحب اپنے وعدوں اور بیانات کے مطابق ریٹائر ہو کر بھا شا ڈیم کی نگرانی کرنے ڈیم کی سائٹ پر چلے گئے اور وہی کے ہو گئے۔ موصوف اب تک اُدھر ہی ہے۔ لوگ پتہ نہیں کیوں کہہ رہے ہیں لندن میں ہے۔ یہ تماشا سہہ کر قوم نے خان صاحب کو یاد دلایا کہ اب تو گبھرانے کی اجازت دی جائے۔
لیکن خان صاحب نے پھر سے ایک تقریر کے ذریعے قوم کو ایسے اُٹھایا کہ سب ششدر رہ گئے۔ خان صاحب کا یہ حوصلہ دیکھ کر قوم نے پھرسے آمید کی نیت باندھ لی اور ایک ہفتے تک اُن کے ساتھ نوافل بھی پڑھ لئے کہ اب کی بار کراچی کے قریب سمندر سے تیل نکلنے والا ہے، اسلئے ساری قوم کئی دنوں تک تیل لینے چلی گئی۔ بس انیس بیس کا فرق تھا ورنہ اتنا تیل نکلنے والا تھا کہ لوگ گاڑیوں میں ڈھلوانے کے ساتھ ساتھ دھلوانے کا کام بھی کرتے اورشادی بیاہ کے تقریبات میں مٹھائیوں کی جگہ ایک دوسرے کو تحفے میں بھی دینے لگتے۔ پر افسوس کہ کسی نے تیل دیکھا اور نہ تیل کی دھار۔ اُس وقت قوم کے پاس گھبرانے کا نادر موقعہ تھا لیکن نجانے کیوں کسی کو یاد ہی نہیں رہا۔ شائد اس وجہ سے بھی کہ وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں یہ بیان جاڑ دیا کہ بس 10 پندرہ دنوں کی بات ہے پھر ملک میں اتنا پیسہ اور خوشحالی آئیگی کہ ہر ٹیلے والا اور کیلے بیچنے والا بھی حکومت کی منتیں کریگا کہ آؤ میرے سے ٹیکس لے لو۔
جب کرونا کی وباء شروع ہونے لگی تو یہ موقعہ پھر سے ہاتھ آنے لگا۔ کیونکہ ایک تو کرونا سے پہلے کوئی 10 سے 12 لاکھ لوگ بے روزگار ہونے لگے تھیں جن مین اکثر صرف غریب یا لور مڈل کلاس والے تھیں۔ لیکن اب حکومتی پالیسی، پالیسی تو ابھی آئی نہیں حکومتی بیانات کی مسلسل ناکامیوں کے بعد غریب تو ویسی بھی تا حیات غربت کی چکی میں پسنے لگا البتہ اب کی بارسفید پوشوں کی چیخیں نکل گئی، اسلئے وزیر آعظم صاحب سے ایک بار پھر التجا کی کہ اب تو ہماری تعداد بھی بڑھنے لگی ہیں تو اب ہم گھبرا لیں۔ لیکن خان صاحب کے ہمت اور حوصلے کو سلام کہ قوم کو ہر پل یہی تسلی دیتے رہے کہ میرے شیرو(ں) گھبرانا نہیں۔ اوپر سے خان صاحب نے یہ بھی کہا کہ کہ گھبرانا نہیں کہ یہ کرونا ایک معمولی زکام ہے اور کچھ دن بعد ٹھیک ہونے والا ہے۔ اوپر سے شروع دن سے لاک ڈاون کی مخالفت کر دی جب سب نہیں تو زیادہ لوگوں کے پاس 3 چار ہفتوں کیلئے گھروں میں رہنے کی ہمت اور کچھ جمع پونجی موجود تھی۔
البتہ شروع شروع میں کرونا کے کیسز کم تھیں اسلئے رہی سہی کسرایسے حکومتی بیانات اور ہم عوام نے پورا کیا۔ ہم نے کرونا کے ساتھ وہ کام کیا کہ اگر کرونا کے آنکھ اور کان ہوتے اور یہ سب دیکھ پاتا تو کنفیوژن کا شکار ہوتا۔ کیونکہ جب پاکستان میں کرونا کے 2 چار کیسز رپورٹ ہونے لگے تو لوگ خوف سے گھروں سے باہر نہیں نکل رہے تھیں۔ دعائیں مانگ رہیے تھیں اور ہر رات 10 بجے آذانیں بھی دے رہے تھیں۔ لیکن اب جب کیسز کی تعداد 1لاکھ سے اوپر چلی گئی تو لوگ ڈراموں اور ٖفلموں کو حقیقت جبکہ کرونا کو ڈرامہ سمجھ کر سوشل ڈسٹنسنگ کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں۔
عوام کی یہ عادت دیکھ کر خان صاحب کو بھی اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ قوم ایسے نہیں سدھریگی جب تک یہ گھبرا نہ لے۔ اسلئے پوری فلم تو معلوم نہیں کب آئیگی ہاں اُس کا ٹریلر چلا دیا اورقوم کو مژدہ سنیایا کہ اگر آپ لوگ اتنا زد کر رہے ہو تو چلو پھر گھبرا لو۔ اسلئے کچھ دن پہلے خطاب کرتے ہوئے وزیر آعظم عمران خان نے کہا کہ کرونا کی وباء جانے والی نہیں جب تک کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوتی، اسلئے عوام کو ایس او پیز پر عمل کرکے احتیاط برتنی چاہیے اور اس افسوس کا ااظہار بھی کیا کہ ممکنہ طور پر اموات میں اضافہ ہوگا اوراگر عوام نے احتیاط نہیں کی تو نتائج کی ذمہ داری بھی اُن پر عائد ہوگی-
دوسرے لفظوں میں کہانی میں اب ٹوسٹ آنے لگا ہے اور کلائیمکس کی طرف بڑھنے لگی ہے کہ میرے پاکستانیوں ہم پے نہ رہنا، بلکہ اپنا کوئی بندوبست کر لو۔
ویسے اب بات گھبرانے تک نہیں۔ اس ملک کا ہر عام آدمے پچھلے ستر سال سے گھبراتا ہی جا رہا ہے۔ لیکن پچھلے دو سال سے جو تماشا لگا ہوا ہے اس کا خمیازہ برسوں تک بگتنا پڑےگا۔ پچھلے سال جب ڈینگی مچھر زمین پر اُتر گئے تو خان صاحب پہاڑوں پر چلے گئے۔ با الکل ایسے جسیے 2010 کے سیلاب میں زرداری صاحب لندن چلے گئے تھیں۔ اور تو اور ابھی کچھ دن پہلے افسوسناک کراچی پلین کریش میں مجتبیٰ شہید کے گھر والوں کو اب تک نہیں معلوم کہ 112 نمبر ڈیڈ باڈی اُن کی تھی یا لاہور سے تعلق رکھنے والے سٹیورڈ کی۔ جب یہ حال ہو تو کوئی گبھرائے یا نہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے رشک آتا ہے پاکیستان کے اپوزیشن رہنماؤں پر کتنے اچھے ہوتے ہیں لیکن جب یہی اپوزیشن والے اقتدار کی کرسی سنبھالنے لگتے ہیں تو پھرستو پی کر تب تک سو رہے ہوتے ہیں جب تک اقتدار ختم نہیں ہوتی۔
آخر میں ایک مشہور واقعہ یاد آرہا ہے کہ نیرو کلاڈیوس (آخری سیزر) پہلی صدی یعنی 54 سے 68 تک روم کا شہنشاہ تھا، سیاہ و سفید کا مالک اوراپنی بادشاہت کے نشے میں گم تھا۔ جولائی ء64 میں روم شہر میں آگ لگ گئی۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق جب آگ سے پورا شہر روشن تھا تو نیرو محل کے فصیل پر بیٹھ کر بانسری بجا ریا تھا اور آگ کے شعلوں سے محظوظ ہو رہا تھا۔ آسلئے کہتے ہیں کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔
خیر نیرو کی بانسری ہو یا ہمارے کسانوں کے ٹڈی دل کے خلاف کمر بستہ ڈھول وہ تو وقت کے ساتھ ساتھ بجتے رہینگے، بس جس نے آج سے گھبرانا ہے وہ کھل کے گھبرا لے کوئی پابندی نہیں۔