470

ہر چھوٹی چیز بڑی میں فناہو رہی ہے – سید خالد حسین باچہ

حضرت انسان جامع جمیع مخلوفات عالم خلا صہ کائنات کے اس دنیا میں آنے سے پہلے جمادات نبانات حیوانات منظر وجود پر آئے اس کائنات میں کوئی ربط نہیں تھا بے سکونی کی کیفیت تھی خواہ چرند ہوں پرند ہرایک پریشان تھااب تخلیق کی غرض کو پورا کرنے کے لیے رب اعلیٰ نے سب کے آخر میں حضرت انسان کی خلقت فرمائی حضرت آدم کے ساتھ تمام کائنات کو غلامی کی نسبت لگ گئی یعنی تمام کائنات انسان کے دست قدرت میں آگئی کیا کبھی غور کیا ہے کہ یہ کائنات جو رب اعلیٰ نے اپنی مرضی اور منشاء سے بنائی حضرت انسان خواہ کسی بھی رنگ نسل قوم مذہب یا مسلک کا ہو اپنی خداد اد صلاحیتوں کے لحاظ سے اس کو استعمال کررہاہے یعنی ہر چھوٹی چیز بڑی میں فنا ہو کر بقا ء کی طرف گامزن ہے ۔جس طر ح تمام ندی نالوں دریائوں کا پانی سمندر میں جاکر سکون حاصل کرتاہے پھر یہ سمندر اس کو بخارات کی صورت میں دوبارہ آسمان کی طرف دھکیل کر اس کو انسانیت کے لیے رحمت کا سامان بناتاہے اور جب آسمان سے بارش برستی ہے تو کہیں پر برف باری ہورہی ہے کہیں پر ژالہ باری تو کہیں پر پانی کی صورت میں کھیتوں کو ہرابھرا کرتی ہے جس طرح پانی پتھروں پر جب برستا ہے تو وہ پانی بہہ جاتاہے لیکن جب مٹی پر برستا ہے تواللہ تعالیٰ کے فضل سے مردہ زمین کو زندہ کرتاہے اور انسا نوں اور حیوانات کی حیات کا سبب ہوتاہے اس سرکلر کو غور سے دیکھیں تو ہرچیز بڑی کے لیے قربانی دے رہی ہے اسی طرح اس کارخانہ قدرت میں حضرت انسان کے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے کیا اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ کھائو پیو اور عیاشی کرو یا اس کارخانہ قدرت میں کوئی راز پوشیدہ ہے اب اس کو سمجھنا ہوگا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چیز بغیر حکمت کے پیدا نہیں کی ہے اس لیے قرآن مجید میں بار بار فرمایا عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔



اب ہم کو دیکھنا ہوگا کہ یہ نشانیاں جو ہیں اس میں کیا راز ہے جو ہمیں اپنے مقصد اعلیٰ کی طرف گامزن اور متوجہ کرانا چاہتا ہے جس طرح جمادات نبانات ایک مخصوص کام کے لیے پیدا ہوئے ہیں لیکن حضر ت انسان کو عقل شعور فہم ادراک دے کر اپنا نائب و خلفیہ بنایا اور پوری کائنات کو غلامی کی نسبت لگا کر رب اعلیٰ نے اپنا فرماں بردار بنایا جس نے اس کے احکامات کی خلاف وزری کی اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور اپنے ہونے کا ہر وقت ثبوت دیتا رہا کہ کارخانہ قدرت چلانے والا ہر چیز پر قادر ہے کیونکہ ہر چھوٹی چیز بڑی میں فنا ہو رہی ہے اور جو کوئی بغاوت کرتا ہے اس کو سزا ملتی ہے اور جو احکامات پر پورا پورا عمل کرتا ہے اس کو اجر ملتا ہے یہ قانون فطرت ہے حضرت انسان کے لیے تمام کائنات بنائی گئی اور تمام کائنات انسان میں فنا ہورہی ہے یا انسان کے لیے خدمت گزار ی کررہی ہے اور اپنی اپنی خدمات پیش کررہی ہے اس لیے
انسان نے پہاڑوں کو نہیں چھوڑا سمندروں کی گہرائیوں کو نہیں بخشا اور زمین تو زمین آسمانوں پر کمند ڈال کر اپنی طاقت کالوہا منوایا کیا بات یہاںپر ختم ہوئی نہیں ۔
اب حضرت انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے ان کو ہدایت دینے لیے ہر قوم میں ان کی زبان میں رسول ہادی رہبر ،پیغمبر آتے رہے اور جب ہر انسان اس قابل ہوا ہے کہ روحانی بار اٹھا سکتا ہے تو سب سے آخر میں مکمل نبوت مکمل دین مکمل شریعت مکمل ہدایت مکمل ولایت الغرض ہر چیز میں اکمل نمونہ انسانیت حضرت محمدۖ خاتم النبین بن کر تشریف لائے جس طرح حضرت انسان کی پیدائش کے ساتھ تمام کائنات کو غلامی کی نسبت لگ گئی اسی طرح حضرت محمدۖ کے تشریف لانے کے لیے تمام انسانوںکو آپ کی اطاعت قبول کرنا اور آپ ۖ پر ایمان لانا ضروری اور لازمی قرار دیا گیا جس طرح اقوام عالم میں اپنے وقت کی بڑی بڑی طاقتوں نے اپنے رسول پیغمبر کا انکار کیا تو صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور آج نشان عبرت بنے ہوئے ہیں اسی طرح تمام مذاہب کے پیروکاروں کو آقاکریم فخر موجودات رحمتہ اللعالمین حضرت محمد ۖ پر ایمان لانا پڑے گا ورنہ صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے کیونکہ فطرت کا تقاضا ہے کہ ہر چھوٹی چیز بڑی میں فنا ہورہی ہے جب تک آقاکریم ۖ تشریف نہیں لائے تھے تو انسانوں میں ربط نہیں تھا ان کا کوئی ایک مرکز نہیں تھا ایک طریقہ عبادت نہیں تھا ایک کتاب پر ایمان نہیں تھا ۔



ہر ایک کا اپنا اپنا طریقہ تھاجبسردار اولین و آخرین حضرت محمد ۖ تشریف لائے تو ایک مرکز دیا ایک طریقہ عبادت دیا ایک قبلہ طرف نماز کا حکم ملا الغرض تمام نسل انسانی کو مرکز میں کر دیا نہ امیر رہا نہ غریب کا فرق ایک صف میں کھڑے کر دیا آقا و غلام کا فرق مٹا دیا خواتین کو حقوق دیے یعنی انسانیت پر رحم فرمایا معراج اعلیٰ پر جاکر ملاقا ت فرمائی اور ہمارے لیے نماز کو معراج قرار دیا جس طرح رات کو تارے علیحدہ علیحدہ چمکتے ہیں ان کی روشنی علیحدہ علیحدہ ہوتی ہے لیکن جب سورج طلوع ہوتاہے تو روشنی تمام جگہ پر یکساں پھیل جاتی ہے۔
اسی طرح آقادوجہاں سردار اولین و آخرین حضرت محمد ۖ سراج منیرہ بن کر طلوع ہوئے تمام کائنات کے لیے آپ کی رسالت ونبوت ہے جو بھی آپ سے انکار کرتاہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہوتاہے کیونکہ جو بغاوت کرتاہے اس کو سزا ملتی ہے یہی کارخانہ قدرت کا فیصلہ ہے پیارے آقا دوجہاںسرور عالم حضرت محمد ۖ جن پر لاکھوں کروڑوں دورد و سلام اب آپ ۖ کو منوانے کے لیے نکلنا پڑے گا کیونکہ تمام کائنات عالم آپ ۖ کو منوانے کے لیے بے تاب ہے کیونکہ تمام کائنات کو آقا دوجہاں ۖ سے غلامی کی نسبت لگ چکی ہے اورہر چیز آپ پر قربان ہورہی ہے ہم کوبھی آپ ۖ پر قربان ہونا پڑے گا ۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں